گلاب، خواب، دوا، زہر، جام کیا کیا ہے میں آ گیا ہوں بتا انتظام کیا کیا ہے
گلاب، خواب، دوا، زہر، جام کیا کیا ہے
میں آ گیا ہوں بتا انتظام کیا کیا ہے
فقیر، شاه، قلندر، امام، کیا کیا ہے
تجھے پتہ نہیں تیرا غلام کیا کیا ہے
امیر شہر کے کچھ کاروبار یاد آئے
میں رات سوچ رہا تھا حرام کیا کیا ہے
میں تم کو دیکھ کر ہر بات بھول جاتا ہوں
تمہی بتاؤ مجھے تم سے کام کیا کیا ہے
زمیں پہ سات سمندر سروں پہ سات آکاش
میں کچھ نہیں ہوں مگر اہتمام کیا کیا ہے
یہ غزل زندگی اور وجودیت کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرتی ہے۔ شاعر نے محبت، طاقت، اخلاقیات اور کائنات کی وسعت جیسے موضوعات کو ذاتی اور فلسفیانہ خیالات کے ساتھ پیش کیا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں: